حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سادات پھندیڑی کی اہم میراث جس کو انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر ایران کلچرہاؤس دہلی میں بہت خوبصورتی کے ساتھ عظیم سرمایہ کاری کرکے کپڑے پرمحفوظ کیا گیاہے اس میراث کو نسب نامہ یا شجرہ سادات پھندیڑی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
پھندیڑی سادات ضلع امروہہ صوبہ اترپردیش کے مغرب میں واقع ہے جس کی کل آبادی: 10000ہے اورمسلم آبادی 95٪ اسی میں شیعہ آبادی 90٪ پائی جاتی ہے یہاں کے لوگ ہمیشہ دیندار رہے ہیں ان کی دینداری کی علامت 4/مساجد اور 10/ حسینیہ و کربلا ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ تعلیم یافتہ رہے ہیں اور درسگاہوں کو بھی بنایا ہے جن میں 9/ اسکول ان کی علم دوستی کی علامت ہے۔ پھندیڑی سادات کے زیدی سادات کے مورث اعلیٰ حضرت سید جمالدین اور سیدکمالدین زیدی واسطی ہیں جن کا سلسلہ نسب امام زین العابدین علیہ السلام تک پہنچتا ہے اسی طرح عابدی سادات کا ایک خاندان ہے جو سنگا بجنور سےہجرت کرکے یہاں آباد ہوا اور ایک خاندان نقوی سادات کا ہے جو امروہہ سے آکر آباد ہوا۔ان کےمورث اعلیٰ حضرت شرف الدین شاہ ولایت نقوی ہیں جن کا سلسلہ نسب امام علی نقی علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔
شجرہ کی اجمالی وضعیت :سنہ 2021 عیسوی میں انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر میں سادات پھندیڑی کے شجرہ کی تجدید کی گئی۔ یہ شجرہ کپڑے پر لکھا گیا ہے جس کی لمبائی 65 میٹر اور چوڑائی ڈیڑھ فٹ ہے۔
تجدید شجرہ:شجرہ مذکور کی کتابت اور سنہ 2021عیسوی تک کی نسل کے اسماء کی تکمیل میں سادات پھندیڑی کی بھرپور مدد رہی ہے جس کے پاس جو بھی تحریر یا قلمی نسخہ موجود تھا اس کی کاپی یا اپنے خانوادہ اور دیگر خانوادوں کے اسماء اس نے منتظمین شجرہ کو پہنچائے جن میں عالیجناب الحاج مولانا سید طالب حسین صاحب امام جمعہ کربلا شاہ مرداں جورباغ دہلی نے ڈاکٹر مولانا ظفرعباس زیدی مرحوم کے قلمی نسخہ جو دیگر علماء جن میں مولانا سید شمشاد حسین مرحوم ، مولانا تاثیر حسین مرحوم مدرس مدرسہ عالیہ رامپور، مولانا سید عابدحسین مرحوم وغیرہ کے قلمی نسخوں کی مدد سے مرتب شدہ شجرہ تھا دیا جس کی بنیاد پر شجرہ مذکورہ کا کام شروع کیا گیا۔
ڈاکٹر ظفر عباس صاحب مرحوم کا جو نسخہ مرکز کو ملا اس میں کچھ شجرات ناقص تھے جن کی کاپی اس شجرہ میں نہیں تھیں یا اوراق ادھر ادھر ہو گئے تھے ان شجرات کو سادات پھندیڑی نے مہیا کرایا اور منتظمین شجرہ کی مدد اور ہمت افزائی فرمائی اسی طرح جناب الحاج ذولفقار باقر صاحب نے اپنے خاندان کے وہ شجرات جو اس نسخہ میں نہیں تھے اور 2021 عیسوی کے شروع تک کے تمام اسماء کی تکمیل کرکے منتظمین کو فراہم کرئے ۔ اس شجرہ کی تدوین اور کتابت میں جناب سعید اختر صاحب کی سعی اور تلاش ناقابل فراموش ہے کیونکہ انہوں نے شب و روز محنت اور زحمت کرکے سادات پھندیڑی کے گھروں پرجاکر شجرہ کو 2021 عیسوی کے شروع تک مکمل کرنے میں مدد فرمائی اور کاتب جناب شمیم احمد بجنوری صاحب کے ساتھ بیٹھ کرسادات کے اسماء کو رفلی صورت میں کاغذ پرتحریر کرایا اور جب شجرہ کی کتابت کپڑے پر ہونا شروع ہوئی تو گاہی گاہی آتے رہے اور شجرہ پر نگاہ فرماتے رہے۔اسیطرح مولانا سید رضی حیدر نمبردار نے اپنے خاندان کے قدیمی اور جدید شجرات 2021عیسوی کے شروع تک جو انہوں نے خود مرتب کیا تھا فراہم کیا اور یہ ہی نہیں بلکہ پوری بستی کے شجرہ پر نظارت بھی رکھی ۔
شجرہ مذکور کی کتابت کے دوران پھندیڑی سادات کے علماء اور فضلاءشجرہ پرنظر کرتے رہے جن میں حجت الاسلام مولانا ریحان حیدر صاحب ، حجت الاسلام مولانا طالب حسین صاحب، حجت الاسلام مولانا حسین عباس عرفی صاحب، حجت الاسلام مولانا محسن عباس ترلوکپوریصاحب ، حجت الاسلام مولانا شان حیدر صاحب ترلوکپوری وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں ۔
خصوصیت شجرہ:شجرہ مذکور میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کو ڈاکٹر ظفر عباس صاحب مرحوم کے قلمی نسخہ کے مطابق مرتب کیا گیا ہے اور کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں ہے سوائے خواتین کے اسماء کے کیونکہ قدیمی نسخوں میں بیٹیوں کے نام نہیں تھے اس نسخہ میں بیٹیوں کے اسماء کو شامل کر دیا گیا ہے۔
اس شجرہ میں زیدی ، نقوی اور عابدی سادات کے شجرات کے علاوہ ایسے خاندانوں کا بھی ذکر ہے جن کے امام معصوم تک سلسلہ نسب کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہو سکی ہے البتہ سادات پھندیڑی کی ان خاندانوں سے رشتہ داریاں اور ان کا ان خاندانوں کو سادات کہنا ان خاندانوں کے سید ہونے کی دلیل ہے جس کی بنا پر ڈاکٹر ظفر عباس صاحب نے شامل کیا ہوگا ڈاکٹر صاحب کے نسخہ کے مطابق یہاں بھی درج کردیا گیا ہے۔ مرتبین، شجرہ کی کتابت اور تدوین کے دوران روزنامہ صحافت، حوزہ نیوز ، فون، نامہ جات اور واٹسپ کے ذریعہ علماء، فضلاء، دانشمندان، مؤمنین اور اہل علم کی خدمت میں گزارش کرتے رہے ہیں کہ جہاں بھی اس نسخہ میں اصلاح کی ضرورت ہو مطلع فرمائیں۔ شجرہ مذکور کو رسم اجرا کے عنوان سے پھندیڑی سادات لے جایا گیا اور وہاں کے سادات اور مؤمنین نے بھی بہت اچھا استقبال کیا۔ سادات نے شجرہ کو پڑھا اور جہاں غلطیاں نظر آئیں اصلاح فرمائی جس کو کاتب نے کپڑے پر بھی اصلاح کیا۔
پھندیڑی سادات ازلحاظ جغرافیائی :یہ قصبہ 848 سال سے آباد ہے اور ہندوستان کے مختلف انقلابی ادوار میں بھی اپنی ترقی پزیر حالت میں قائم رہا اور ہے۔ سادات پھندیڑی کے اسلاف کو جگہ کے انتخاب کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے اپنی دور بینی اور دوراندیشی کے ماتحت اپنی آبادی کے لئے ایسے مقام کا انتخاب کیا جو جغرافیائی اور ماحولیاتی اعتبار سے یہاں کی آب و ہوا صیحت بخش ہونے کے ساتھ اسکا محل وقوع بھی ہر حالت میں بہتر ہے۔ پھندیڑی سادات کے مشرق میں 13 کلومیٹر کے فاصلہ پر نوگاواں سادات ہے جس کی ہمسائیگی کے بعد امروہہ، مرادآباد، رامپور، بریلی اور لکھنؤ ایسے مقامات ہیں۔ اسیطرح مغرب میں گنگاندی کو پارکرنے کے بعد ہاپوڑ، میرٹھ اور 127کلومیٹر کے فاصلہ پر دہلی بھارت کا دل ہے جواپنے مقام پر اہمیت کی حامل ہے اور یہ بسی اسی کے نزدیک اپنے مقام پر قائم ہے۔ شمال میں چاندپور،بجنور، نجیب آباد اور اس کے بعد قدرتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جنوب میں منڈی دہنورہ، بچھرایوں اور حسن پورجیسے مقامات ہیں ۔
اس قصبہ کے مغرب میں ریلوے اسٹیشن اور پختہ سڑک ہےجن کا رابطہ دہلی ، مرادآباد، سہارنپوراور لکھنؤ تک منسلک ہے اورہرطرف کے سفر کو آسان بناتے ہیں ۔ زمانہ قدیم میں دہلی اور لکھنؤ علمی اور مالی ترقی کے مرکز رہے ہیں اور ان تک پہنچنا یہاں کے لوگوں کے لئے دشوار تھا لیکن پھر بھی یہاں کے با اہمیت بزرگوں نے پیدل سفر کرکے دہلی اور لکھنؤ میں دربار بادشاہی میں اپنامقام حاصل کیا اور تعلیم کے شعبہ میں بھی درجہ اجتہاد تک فائز ہوئے ۔ یہاں کی سادات علوم جدیدہ کے دور میں بھی تعلیم یافتہ اورہرشعبہ میں پائی گئ ہے اور پائی جاتی ہے ۔
پھندیڑی سادات کے علمی، فرہنگی اورمذہبی مراکز: قصبہ کے باشندگان جن مراکز سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں ان میں: کربلا، امامبارگاہ شاہ حسین، امامبارگاہ پنجتنی، امامبارگاہ زینبی(شمالی)، امامبارگاہ پدھان بخش، امامبارگاہ پیرجی، امامبارگاہ میاجی(چینی)، امامبارگاہ حیدرکرار، امامبارگاہ نثار حسین اور امامبارگاہ جناب صغریٰ(خواتین) مسجد زینبی(شمالی)، مسجد پدھان حسین، مسجد جامع اور مسجد نورانی(اہلسنت)،مدرسہ نورانی اہلسنت، مدرسہ مصباح العلم، مدرسہ جامعہ بیت العلم، مدرسہ نساءفاطمیہ(نسواں) الزہراء انٹرکالج، الزہراء ہوسپیٹل، محمد عباس انٹر کالج، امام مہدی میموریل اسکول(مولانا ابرار کا اسکول) جونیئرہائی اسکول، مریم سلائی سینٹر، ۔۔۔۔کمپیوٹر سینٹر وغیرہ کےنام لئے جاسکتے ہیں۔
پھندیڑی سادات میں آباد خاندان:میں زیدی سادات کے علاوہ نقوی اور عابدی سادات بھی موجود ہیں جو امروہہ، سنگا، کندرکی، شاہ جہاں پور، نوگاواں سادات اور سالار پور سے آکر آباد ہوئے ہیں۔ زیدی سادات حضرت سید عبدالحسین الملقب ابولفرح واسطی کی نسل سے ہیں جن کا سلسلہ یوں ہے سیدجمال الدین بن رکن الدین اور زین العابدین بن رکن الدین(جمالدین اور زین العابدین دونوں بھائی ہیں جن کی نسل سے اس قصبہ میں زیدی سادات ہیں )بن سید عباس بن سید عبدالرسول بن سید عبداللہ بن سید علی بن سید عباس بن سید داؤد بن سید عبدالحسین الملقب بہ ابوالفرح واسطی۔ سیدجمال الدین اور زین العابدین کی نسل مختلف خاندانوں میں تقسیم ہے جن میں قاضی، نواز علی، نمبردار، رئیس، شریعت، وغیرہ ۔
غیر سادات شیعہ اثنا عشری خاندان:جہاں اس بستی میں زیدی، عابدی، نقوی اور دوسرے خاندان ہیں وہیں ایک خاندان غیر سادات شیعہ اثنا عشری بھی آبادہےاس خاندان کے سربرہان جناب شیخ مختار احمد ابن الحاج اللہ دیا، جناب شیخ نیاز احمد ابن الحاج اللہ دیا مرحوم، جناب شیخ سبحان علی ابن شہادت علی اورجناب محمد یوسف ابن اطہر حسین جو اپنی سسرال میں آکر آباد ہوئے ۔ ان ہی حضرات نے مذہب حق کو قبول کیا اور اپنے بچوں کو مذہب حق کیتعلیم دی ۔ اس خاندان کے تین افراد عالم دین ہیں جو خدمت خلق اور خدمت دین اسلام میں مصروف ہیں ان کے اسماء یوں ہیں : حجت لاسلام مولانا شیخ ممتاز علی مرتضوی ابن مختار احمد ، حجت لاسلام مولانا شیخ اسرار حیدر مرتضوی ابن نیاز احمد اور حجت لاسلام مولانا شیخ رئیس الحسن مرتضوی ابن سبحان علی صاحبان ۔
پھندیڑی سادات کی تاریخ پر طائرانہ نظر: امام سجاد علیہ السلام (علی بن الحسین، جن کے القاب زین العابدین اور سجاد تھے) جو شیعوں کے چوتھے امام ہیں۔ آپ تیسرے امام (امام حسین بن علی بن ابوطالب علیہم السلام) کے فرزند تھے اور ایرانی بادشاہ یزد جرد کی بیٹی شھر بانو کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ آپ، امام سوم کے اکیلے فرزند تھے جو کربلا میں زندہ بچ گئے تھے ۔ آپ بھی اپنے والد کے ساتھ کربلا میں تشریف لائے تھے سخت بیمار ہونے کی وجہ سے ہتھیار اٹھانے اور جنگ میں شرکت کرنے کی طاقت نھیں رکھتے تھے اسی لئے جہاد اور شہادت سے معزور رہے اور اسیران حرم کے ہمراہ شام بھیج دئیے گئے۔آپ کی اولاد آپ کے فرزند زید بن علی کی نسل ہندوستان میں آباد ہے۔ حضرت زید ، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پرہیز گار اور متقی فرزند ارجمند تھے۔ حضرت زید بن علی کی ولادت باسعادت امام زین العابدین علیہ السلام کے بیت الشرف واقع مدینہ منورہ میں ہوئی۔ ان کی تاریخ ولادت پرمختلف مورخین کے درمیان اختلاف راۓ موجود ہے ۔ مشہور محقق ابن عساکر نے ان کی تاریخ ولادت ۷۸ ہجری جبکہ ایک اور مورخ محلی ان کی تاریخ ولادت ۷۵ ہجری لکھتے ہیں۔چند مورخین کے مطابق ان کی تاریخ ولادت ۸۰ ہجری بنتی ہے۔ ابن عساکر نے اپنی کتاب تھذیب تاریخ دمشق الکبیر کی جلد ۶ کے صفحہ ۱۸ پر لکھا کہ آپ کی شھادت ۴۲ سال کی عمر میں سن ۱۲۰ق میں ہوئی اس حساب سے آپ کا سال ولادت با سعادت ۷۸ھ ہی بنتا ہے۔ لیکن شیخ مفید اپنی کتاب مسارالشیعتہ میں ان کا سال شہادت اول ماہ صفر ۱۲۱ھ لکھا۔ مشہور کتاب مسند امام زید جو کہ حضرت زید بن علی کی شرح احوال کے بارے میں ہے اس میں آپ کا سال ولادت با سعادت ۷۶ ھ جبکہ سال شھادت ۱۲۲ھ د رج ہے۔اس طرح آپ کی عمر ۴۶ سال بنتی اور زیدی سادات اس کو درست تسلیم کرتے ہیں اور یہی تاریخ قرین قیاس ہے۔حضرت زید بن علی کو شہید، حلیف القرآن، زیدالازیاد، عالم آل محمّد و فقیہ اہلبیت کے القابات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت زید بن علی کی شہادت کے بعد ان کی اولاد میں چار بچے باقی رہےحسین بن زید (ذوالدمعہ یا ذی العبرہ)، محمد بن زید، عیسی بن زید (موتم الاشبال) و یحیی بن زید (سیف ُ الاسلام) تھے جن میں سادات زیدی پھندیڑی و مظفر نگر حضرت عیسی بن زید (موتم الاشبال) کی نسل سے ہیں۔ کتاب صحاح اخبار میں مرقوم ہے کہ آپ اپنے پدر حضرت زید کی شہادت کے وقت نہایت خوردسال تھے ایک عرصہ تک آپ نے گمنامی میں زندگی بسر کی۔ جناب مظفر صاحب رئیس جانسٹھ تاریخ بارہ میں رقم فرماتے ہیں: جناب عیسا کے اہل و عیال یعنی ان کی زوجہ بنت عروہ بن مسعود اور ان کے بطن سے جو اولاد ہوئی وہ سب کے سب بصرہ ہی میں تھے اور یہ تنہا اپنی ذات سے ظالم سلطان کے خوف سے کوفہ میں پوشیدہ تھے۔(تاریخ سادات باہر مؤلفہ رئیس جانسٹھ، ص 10)آپ کے چار فرند ہوئے احمد، زید، حسین اور محمد جو مورث اعلیٰ سادات زیدی تھے جناب عیسیٰ نے حالت اخفا سنہ 166 ہجری میں کوفہ میں وفات پائی۔ سید محمد المدعو بہ کبریٰ بن عیسیٰ بنت عروہ کے بطن سے تھے اور لقب آپ کا کبریٰ تھا ایک مدت تک مخفی رہے پھر بصرہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کے فرزندسید علی ہوئے۔ سید علی بصرہ میں سکونت پزیر تھے اور وہیں مدفون ہیں۔ آپ کے فرزندسید حسین ہوئے۔ سید حسین سنہ 203 ہجری میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے زمانہ میں بصرہ میں تھے اور وہیں مدفون ہیں آپ کے ایک فرزند ہوئے جنکا نام سیدعلی اور لقب عراقی ہے۔ حسب تحریر رسالہ جنیدیہ ، سید علی عراقی نے مدینہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں آپ کی قبر ہے۔ سید علی عراقی کے پانچ فرزند ہوئے : سید ابوالحسن، سید احمد ،سید عمر، سید علی اور سید حسن ، جن میں سید حسن مورث اعلیٰ سادات زیدی پھندیڑی و مظفرنگر ہیں ۔ سید حسن مدینہ میں رہے اور وہیں مدفون ہیں۔ سید حسن کے پسر سید علی ہوئے جو پہلے مدینہ میں رہے پھر ہجرت کرکے بصرہ چلے آئے ۔ سید علی کے پسر زید ثانی ہوئے جو بصرہ میں رہے اور وہیں مدفون ہیں۔ زید ثانی کے بیٹے سید عمر ہوئے جو بصرہ میں ساکن رہے اور وہیں وافات پائی۔ سید عمر کے بیٹے زید ثالث ہوئے جنہوں نے مدینہ میں ہی ساکن رہے اور وہیں وفات پائی۔ زیدثالث کے بیٹے سید یحیٰ ہوئے جنہوں نے فدک میں سکونت اختیار کی اور وہیں مدفون ہیں۔ سید یحیٰ کے بیٹے سید حسن ہوئے جنہوں نے مدینہ میں سکونت رکھی اور وہیں وفات پائی۔ سید حسن کے بیٹھےسید داؤد مدینہ ہی میں پیدا ہوئے اور وہیں مدفون ہیں، سید داؤد کے بیٹھے سید ابولفرح واسطی مدینہ میں پیداہوئے اور علم وفضل میں کمال حاصل کیا۔ اتفاق زمانہ اور بعض ضروریات انسانی نے آپ کو مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا اور عراق میں پہنچ کرشہر واسطہ میں سکونت اختیار کی۔ شہر واسطہ اس وقت نہایت آباد اور پررونق تھا ۔
سلاطین و شاہان وقت کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر اور دین مبین محمد و آل محمد کی تبلیغ و سر بلندی کے لیے اس خاندان نے سر زمین عراق کو بھی خیر باد کہا اور ایران میں جا کر آباد ہوا وہاں سے ہجرت کرتے ہوئے زاہدان اور افغانستان کے راستے عہدغزنوی میں ہندوستان میں آ کر آباد ہوا۔اسی خاندان کی نسل کونڈلی وال پنجاب سے دہلی روہیلکھنڈ ہوتے ہوئے روشن گڑھ (پھندیری سادات) میں آباد ہوئی۔
سلطان شہاب الدین نے ہندوستان میں مختلف جنگیں لڑیں جن میں سنہ 587ہجری میں مہاراجہ پرتھی راج سے تلاوڑی کے میدان میں جو کرنال اور تھانسیر کے درمیان واقع ہے جنگ عظیم ہوئی بہت دیر تک دونوں طرف کے بہادروں میں جنگ رہی اور سلطان شہاب الدین نے شکست کھائی اور بہت مشکل سے جان بچاکر غزنین واپس ہوا، وہاں پہنچ کراس ملال کو کسی پر ظاہر نہ کرکے بظاہر عیش ونشاط میں مصروف ہوگیا مگر در پردہ فراہمی و درستی فوج و تہیہ سامان حرب و ضرب میں کوشش کرتا رہا۔ ایک سال کے بعدلشکرجرارفراہم ہوگیا تو سنہ 588 ہجری میں بڑےجاہ جلال کے ساتھ غزنین سے ہندوستان کی طرف چلا اور کسی کو اپنے ارادہ سے باخبر نہیں کیا۔لاہور میں داخل ہوا اور لشکرکی از سرنوتربیت میں اہتمام کیا گیا اور تمام مسلمان سرداروں کو جو اقطاع پنجاب و گجرات وغیرہ میں مامور تھے طلب کیا۔ چنانچہ اکثر امراء و جاگیردار اپنے اپنے علاقوں سے آکر لشکر شاہی میں شامل ہوگئے منجملہ سید ابوالفرح واسطی سے سید ابوالحسن ، سید یحی، سید حسن فخرالدین، سید عوض، سیدجمالدین، سید زین العابدین، سید کمالدین ، سید علی اور سید محمد صغریٰ وغیرہ جو علاقہ کلانور میں اپنی اپنی جاگیروں پر قابض تھے خدمت سلطان میں پہنچ کر شریک فوج ہوئے۔ سلطان لشکر کی ترتیب کے بعد متوجہ مطلب ہوا اور پرتھی راج مہاراجہ سے جنگ کی جس کے نتیجہ میں سلطان کو کامیابی ملی۔ پرتھوی راج کو شکست دینے کے بعد اجمیر کا رخ کیا اور اجمیر کو بھی فتح کرلیا پھر اس کے بعد دہلی کی طرف بڑھا اور تمام جنگوں کو فتح کرکے غزنین کی واپسی کا ارادہ کیا تو واپسی کے وقت ہندوستان میں اپنے تربیت یافتہ غلام قطب الدین ایبک کو اپنا نائب مقرر کیا اور خود غزنین واپس چلا گیا ۔ قطب الدین ایبک نے تمام جنگوں میں کارہای نمایا انجام دیے یہاں تک کہ نواح دہلی کے اضلاع جو دو آبہ گنگا جمنا کے درمیان تھے قبضہ میں لے لیے ۔ سلطان شہاب الدین ایبک غوری کئی مرتبہ ہندوستان آیا اور جنگ فتح کرتا اور چلا جاتا تھا جن میں سنہ 591 ہجری میں ہندوستان آیا اور قطب الدین ایبک کے لشکر سے ملحق ہوکر قنوج فتح کیا سنہ 592ہجری میں بیانہ فتح کیا اور واپس چلا گیا۔
سنہ 594 میں قطب الدین ایبک نے روہیلکھنڈ اور بندہیلکھنڈ کی طرف فوجیں بھیجی جنھوں نے علاقہ جات کالپی، بدایوں، کالنجر وغیرہ کو فتح کیا۔ جو فوجیں اس حصہ ملک کی طرف گئیں جو آج کل روہیلکھنڈ کہلاتا ہے ان میں سید جمالدین اور سید زین العابدین از اولاد سید ابولفرح واسطی بھی شریک تھے۔بدایوں کی فتح کے بعد واپسی میں مقام روشن گڑھ ضلع امروہہ میں افواج کے خمیمے نصب ہوئے۔ یہاں کے ہندو باشندے اول تو خود سر تھے دوسرے ایسے متعصب کہ دن چڑھے تک مسلمانوں کی صورت دیکھنا جائز نہیں سمجھتے تھے لہذا وہ ان کے معترض ہوئے سپہ سالار نے ان کی خودسری اور تعصب نعلوم کرکے فورا اس موضع پر دھاوا کر دیا۔ وہ لوگ تاب مقاومت نہ لاکر قلعے میں پناہ گزین ہوئے۔ سید جمالد الدین مع چند ہمراہیوں کے کمنڈیں ڈال کر اس قلعہ پر چڑھ گئے اور اندر پہنچ کر کشتوں کے پشتے لگا دیے حتیٰ کہ قلعہ فتح ہوگیا۔ یقیۃ السیف ہندؤوں کو امان دی گئی۔ اس واقعہ کی تاریخ "قتل ہنود "ہے۔ جس سے سنہ 595ہجری برآمد ہوتا ہے۔ جب یہ لشکرفتح وفیروزی کے بعد دہلی پہنچا اور قطب الدین ایبک اس واقعہ سے مطلع ہوا تو اس نے خوش ہوکر قلعہ مذکور معاس کے توابعات کے سید جمال الدین صاحب کو عطا کردیا جس میں آپ نے اور آپ کے بھائی زین العابدین نے سکونت اختیار کی اور اب تک آپ لوگوں کی ہی اولاد اس میں آباد ہے۔ سید صاحب نے قلعہ کو بذریعہ کمنڈ چڑھ کر فتح کیا تھا اور ہندی زبان میں کمنڈکو پھاند کہتے ہیں لہذا یہ مقام پھاند ہیڑی کے نام سے مشہور ہوگیا جو اس وقت پھندیڑی کہلاتاہے اور آج اسی نام سے معروف ہے۔(انساب السادات المعروف تاریخ سادات باہرہ، ص 28، مؤلفہ خان بہادر سید مظفر علی خان، المتخلص کوثر، رئیس جانسٹھ ضلع مظفرنگر ۔(تاریخ سادات باہرہ مؤلف وزیر حسن، ص 28)
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ پالنے والے سادات اور مؤمنین کو جدسادات حضرت محمد مصفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے، سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور کاوش کنندگان کی سعی و تلاش کو قبول فرما آمین۔ والحمدللہ رب العالمین سید رضی حیدر پھندیڑوی